Friday, December 28, 2018

Ustaad k naam

جہاں کوئی ٹیچر نہ بننا چاہے وہاں بظاہر پڑھے لکھےلیکن حقیقتاجاہل راج کرتے ہیں.
"ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان  ملکہ برطانیہ اور انکے شوہر کے پاکستان دورے کے دوران  برن ھال سکول  ایبٹ آباد لے گئے، ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، انکے شوہر بچوں سے باتیں کرنے لگے، پوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے، بچوں نے کہا ڈاکٹر ، انجنیئر ، آرمی آفیسر ،  پائلٹ ، وغیرہ وغیرہ...کچھ خاموش ہو گئے پھرلنچ پر  ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے، میں نے بیس بچوں سے بات کی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک  ہے... ایوب خان صرف مسکرا دیے کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے

آج تہذیب و تمدن کی یہ جو اتنی بڑی عمارت کھڑی ہے۔ اس کے پیچھے اْسی شفیق و محترم ہستی کا ہاتھ ہے جسے اتالیق یا استاد کہتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ ، جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی تھی ، اپنے اساتذہ کے سامنے ہمیشہ سر جھکا دیا کرتے تھے۔’’ سکندرِ اعظم ‘‘یونانی جس نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار پر فتح کی ،’’ ارسطو ‘‘جیسے معلم اول کا شاگرد تھا۔ یہ مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یہ خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار، یہ اندلس کا الحمراء ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ’’ جلال الدین محمد اکبر‘‘… تاریخ شاہد ہے کہ استاد کی عظمت سے اسقدر بلند پایہ اولولعزم حکمران بھی واقف تھے۔

آج اگر اہلِ مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیں۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو تو پھر بھی لوگ قوم کے استاد کے لیے سیٹ خالی کردیتے ہیں۔ وہاں عدالت میں استاد کی گواہی کو پادری کی گواہی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سلیوٹ کرتا ہے ، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتے ہیں۔

کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل

کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل

گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی

صرف ادراکِ جنوں تھا اور قبا ناچاک تھی

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال ؒ کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبالؒ نے فرمایا:۔

’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔

یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:۔

’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے…؟‘‘

یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ:۔

’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن ؒ کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد علامہ صاحب نے مزید کہا کہ:۔

’’میرے استاد مولوی میر حسن ؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر‘‘

اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسنؒ کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبالؒ کے استاد نہ ہوتے۔لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن ؒکے نام سے جانے جاتے ہیں۔

الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شئے سے بلند اور بسیط ہے۔ حتیٰ کہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استاد اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔اور رسولِ اکرم کی حدیث پاک ہے کہ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے تاجر کا خطاب پسند نہ کیا حالانکہ آپ حجاز کے ایک کامیاب ترین تاجر تھے۔ آپ نے اپنے لیے پسند کیا تو معلم یعنی استاد کا رتبہ ۔ چنانچہ استاد کی عظمت سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں.

کانپتے ھاتھوں یہ الفاظ ان اساتذہ کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
جنہوں نے مجھے انسان بنایا۔۔۔۔۔!!!!
         میرے استاد 
          میرے معلم
        میرے مربی 
          میرے مدرس 
آپ کی تعریف و شکریے کے لئے
سال میں صرف ایک ہی دن۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
نہیں نہیں میں نہیں مانتا۔۔۔۔۔
میرا تو۔۔۔۔۔۔
                             ھر چڑھتا سورج 
                              ابھرتا چاند 
                                 میری زندگی کا ھر اک 
                                 لمحہ آپ نے سنوارا  ھے 
           بس یہی حقیر تحفہ ھے 
           میری زندگی کے وہ سارے لمحے 
              میرے استاد 
                        آپ کے نام 
               سلام میرے عظیم اساتذہ 
*ﺍﺳﺘﺎﺩ  ِﻣﺤﺘﺮﻡ  ﮐﻮ   ﻣﯿﺮﺍ  ﺳﻼﻡ  ﮐﮩﻨﺎ*

*اﮮ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﻣﻠﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﮎ ﭘﯿﺎﻡ ﮐﮩﻨﺎ*
*ﺍﺳﺘﺎﺩ  ِﻣﺤﺘﺮﻡ  ﮐﻮ   ﻣﯿﺮﺍ  ﺳﻼﻡ  ﮐﮩﻨﺎ*

*ﮐﺘﻨﯽ  ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ   ﺳﮯ  ﭘﮩﻼ  ﺳﺒﻖ  ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ*
*ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮧﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺐﮐﭽﮫ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ*

*ﺍﻥ ﭘﮍﮪ  ﺗﮭﺎ  ﺍﻭﺭ  ﺟﺎﮨﻞ ، ﻗﺎﺑﻞ  ﻣﺠﮭﮯ  ﺑﻨﺎﯾﺎ*
*ﺩﻧﯿﺎﮰ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺩﺍﻧﺶ  ﮐﺎ  ﺭﺳﺘﮧ مجھے ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ*

*ﻣﺠﮫ  ﮐﻮ ﺩﻻﯾﺎ  ﮐﺘﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﮩﻨﺎ*
*ﺍﺳﺘﺎﺩ  ﻣﺤﺘﺮﻡ  ﮐﻮ  ﻣﯿﺮﺍ  ﺳﻼﻡ  ﮐﮩﻨﺎ*

*ﻣﺠﮫ  ﮐﻮ ﺧﺒﺮ نہ  ﺗﮭﯽ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ  ﻣﯿﮟ  ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ*
*ﻣﺎﮞﺑﺎﭖ ﺍﺱﺯﻣﯿﻦپہ مجھےﻻﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ*

*ﭘﮩﻨﭽﺎ  ﺩﯾﺎ  ﻓﻠﮏ  ﺗﮏ  ﺍﺳﺘﺎﺩ  ﻧﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ*
*ﻭﺍﻗﻒ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ*

*ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﻻﯾﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﮩﻨﺎ*
*ﺍﺳﺘﺎﺩِﻣﺤﺘﺮﻡ  ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ  ﺳﻼﻡ   ﮐﮩﻨﺎ*

*ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﻦ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ، ﻣﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﻧﮑﭙﻦ ﺑﮭﯽ*
*ﻋﺰﺕ  ﮐﮯ گر ﺑﺘﺎﺋﮯ، ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﭼﻠﻦ ﺑﮭﯽ*

*ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺑﮭﯽﺭﺍﮦﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽﺍﻧﺠﻤﻦ ﺑﮭﯽ*
*ﺗﻢ   ﻓﺨﺮ ِ ﻗﻮﻡ   ﺑﻨﻨﺎ  ﺍﻭﺭ   ﻧﺎﺯﺵِ  ﻭﻃﻦ  ﺑﮭﯽ*

*ﮨﮯ ﯾﺎﺩ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﮎ ﺍﮎ ﮐﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ*
*ﺍﺳﺘﺎﺩِ  ﻣﺤﺘﺮﻡ    ﮐﻮ  ﻣﯿﺮﺍ  ﺳﻼﻡ  ﮐﮩﻨﺎ*

*ﺟﻮ  ﻋِﻠﻢ  ﮐﺎ ﻋَﻠﻢ  ﮨﮯ  ﺍﺳﺘﺎﺩ  ﮐﯽ  ﻋﻄﺎ  ﮨﮯ*
*ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻗﻠﻢ ﮨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﮨﮯ*

*ﺟﻮ ﻓﮑﺮِ ﺗﺎﺯﮦ ﺩﻡ ﮨﮯ  ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﯽ  ﻋﻄﺎ ﮨﮯ*
*ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﺭﻗﻢ ﮨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﮨﮯ*

*ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﺳﮯ ﭼﻤﮑﺎ ہے ﻧﺎﻡ ﮐﮩﻨﺎ*
*ﺍﺳﺘﺎﺩ ِﻣﺤﺘﺮﻡ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ*

*ﺍﮮ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﻣﻠﯿﮟﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﮎ ﭘﯿﺎﻡ ﮐﮩﻨﺎ*
*ﺍﺳﺘﺎﺩ  ِﻣﺤﺘﺮﻡ  ﮐﻮ  ﻣﯿﺮﺍ  ﺳﻼﻡ  ڪہنا*...

No comments:

Post a Comment